آئے روز سوشل میڈیا پر خودکشی کے واقعات کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ یہ الم ناک رجحان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے، جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے محض خبر یا واقعہ سمجھنے کے بجائے ایک سنجیدہ سماجی مسئلہ تسلیم کیا جائے۔ اس پر غور و فکر اور اجتماعی طور پر ذمہ دارانہ رویہ اپنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔خودکشی ایک انتہائی اور آخری قدم ہے۔ زندگی کا خاتمہ نہ تو کسی صورت میں جائز ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہے۔کیوں کہ موت ہر جان دار کے لیے نہایت تکلیف دہ اور ناقابلِ برداشت عمل ہے۔ کوئی بھی اپنی زندگی ختم کرنا نہیں چاہتا، لیکن جب جینا موت سے زیادہ کٹھن ہو جائے تو انسان ایسے کمزور لمحے میں موت کو پناہ سمجھنے لگتا ہے۔
مزید پڑھیں: خودکشی:اہم سماجی مسئلہ — تحریر:عبداللطیف قمرکسی فرد کی خودکشی پر کیے جانے والے تبصروں میں عموماً اسے بزدلی، حالات سے فرار یا غلط فیصلہ کہا جاتا ہے۔ ساتھ ہی مرنے والے کے لیے افسوس اور ہمدردی کے جذبات بھی ظاہر کیے جاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی اتنے ہمدرد اور احساس رکھنے والے لوگ موجود تھے تو خودکشی کرنے والے نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا؟ کیا احساس صرف موت کے بعد جاگتا ہے؟ یا پھر خودکشی کرنے والا دراصل معاشرے میں احساس اور ہمدردی کی موت کا اعلان کرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر دفن کس کو کیا جاتا ہے؟ اُس بے جان جسم کو یا معاشرتی ضمیر کو؟
دنیا کے تمام مذاہب احساس، ہمدردی اور اخلاقیات کی تعلیم دیتے ہیں، مگر اسلام سب سے زیادہ انسانی حقوق پر زور دیتا ہے۔ اس کی تاریخ ایثار، ہمدردی اور محبت سے روشن ہے۔ اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے اور ساتھ ہی انسان کو اپنے گردوپیش سے باخبر رہنے کی ہدایت دی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی ہمسائے کے گھر فاقہ ہو تو بھی بازپرس کی جا سکتی ہے۔ ایسے میں اگر معاشرہ اپنے قریب کے لوگوں کی مشکلات اور پریشانیوں سے غافل ہے تو یہ اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اگر خودکشی کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو اکثر افراد غربت، تنگ دستی اور حالات کی سختیوں سے شکست کھا کر یہ قدم اٹھاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے افراد کو موت کے دہانے سے واپس نہیں لا جا سکتا جو محض غربت اور محرومی کی وجہ سے زندگی سے دستبردار ہو جاتے ہیں؟
خودکشی کا ایک اور پہلو نفسیاتی دباؤ ہے۔ تنہائی، الجھنیں، فیصلہ نہ کر پانے کی کیفیت اور زندگی کی سمت کھو دینا انسان کو جذباتی اور ذہنی طور پر توڑ دیتا ہے۔ ایسے کمزور لمحوں میں اگر کوئی ان کی بات صبر سے سن لے، انھیں حوصلہ دے اور ساتھ کھڑا ہو جائے تو وہ زندگی کی طرف پلٹ سکتے ہیں۔ شاید وہی ایک لمحہ ان کے لیے زندگی اور موت کے بیچ فرق ڈال سکتا ہے۔